زر کی حوس نے انسان کو انسانیت کی معراج سے گرا کر ذلت کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے ، زر کی چمک نے انسان کو اندھا کر دیا ہے ۔ یہی حال موجودہ دور میں ملک پاکستان کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کا رہ گیا ہے ، جہاں پر زور آور اور بے لگام دولت مند لوگوں کے لیے تو انصاف کے دروازے فوراً کھل جاتے ہیں لیکن غریب شخص کو انصاف لینے کے لیے اپنے جوتے کپڑے بیچ کر ننگ دھڑنگ ہونا پڑتا ہے ۔ بنیادی طور پر انصاف کے لیے انسان کا ننگا ہونا تو موجودہ سسٹم کا ننگا ہونا ہی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اسے محسوس نہیں کرتے ۔ ہم اپنی انا کی تسکین اور زر کی حوس میں مبتلا ہو کرغریبوں پر ظلم و تشدد کرتے ہیں ۔ اور جب کوئی مظلوم پولیس کے پاس جاتا ہے تو بجائے اس کو انصاف دینے کے پولیس مظلوم کو ہی استہزاکا نشانہ بناتی ہے ، یہی بات ہے کہ غریب لوگ ہمیشہ پولیس کی بجائے ڈیروں کا رخ کرتے ہیں، پاکستان کی کل آبادی میں سے صرف دس فیصد لوگ ایسے ہوں گے جو پولیس کے رویے اور انصاف کے پیمانوں سے پچاس فیصد تک راضی ہوں گے ، ورنہ تقریباً 90فیصد لوگ پولیس کے رویوں ،نا انصافی ، ناقص تفتیش، ضمنیوں، مثلوں میں رد و بدل سے نہ صرف بد ظن ہیں بلکہ وہ پولیس کے محکمہ میں واضح اصلاحات کا نظریہ رکھتے ہیں
پولیس میں اصلاحات کیسے کی جائیں ؟
پاکستان کی پولیس کا نظام انگریز سسٹم کا محتاج ہے ، ملک خدادا پاکستان میں آج بھی انگریزی نظام کے تحت سزائیں دی جاتی , ہیں پولیس کی اصلاحات سے قبل ملک خدادا پاکستان کے نظام حکومت /سسٹم کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے، ایک اہلکار جو بھاری بھرکم رقم دے کر پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی ہوگا تو وہ اپنی انویسٹ کی گئی رقم کیسے واپس لے گا، ایک افسر جو سفارش کی بنیاد پر کسی تھانہ ، دفتر میں تعینات ہوگا تو سفارشی یا سفارشی سے منسلک لوگوں کی بات نہیں مانے گا تو اسے اپنے تبادلے کا ڈر ہوگا۔ سفارشی اور اس سے منسلک لوگ اس افسر کی ایماء پر پورے علاقہ میں ات مچائیں گے ، جھوٹے پرچے کٹوائیں گے ۔ یوں ظلم کے نظام کو پنپنے کا موقع ملے گا، لوگوں کے حقوق کا استحصال ہوگا ، انسانیت سسکنا شروع کر دے گی ، اور فرعونیت کی روح زندہ ہو جائےگی۔ پولیس میں اصلاحات کے لیے میرٹ پر بھرتیاں میرٹ پر تبادلے ضروری ہیں سفارش کلچر کو بلڈوز کرنا ضروری ہے ۔ جبکہ بھرتی کے دوران رشوت ستانی اور سفارش کی بجائے میرٹ اور ایمانداری کو ترجیح دی جانی چاہیے جب کہ پولیس کے جوانوں کے کردار کو بہتر بنانے کے لیے ہر روز ایک مبلغ جوانوں کی روح کو تازہ اور پاکیزہ رکھنے کے لیے تبلیغ کرے افسران سیاستدانوں کے تلوے چاٹنے کی بجائے اپنی فرائض منصبی کو سمجھیں اور میرٹ پر فیصلے کریں ۔
عوام الناس کا رویہ
عوام الناس میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنے مخالفین پر سبقت لیجانےاور نیچا دکھانے کے لیے پولیس کے افسران کو بھاری رشوت دینے کے لیے ہمیشہ لالچ دیتے ہیں تاکہ ان کا مخالف گر جائے اور ان کا معاشرے میں بول بالا ہو ، حالانکہ بنیادی طور پر کسی پر جھوٹا پرچہ کٹوانا ، جھوٹ کو پروموٹ کرنا ایک ظلم ہے ، اور ایک ظالم اپنے طمع نفسانی کی خاطر زر کے ذریعے یا سفارش کے ذریعہ کسی بے گناہ پر جھوٹا پرچہ کٹواتا ہے تو ملزم کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑکتی ہے، بے گناہ شخص یا تو رب کے حضور دعا کرے گا یا پھر خود کوئی نہ کوئی انتقامی کاروائی کرے گا، جس سے معاشرے میں بگاڑ بڑھے گا نہ کہ کم ہوگا۔ اور اس سب میں عوام الناس کا رویہ انتہائی شرمناک ہے ۔ عوام الناس کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ آیا وہ جو کام کر رہے ہیں کہیں وہ معاشرے میں مزید بگاڑ تو پیدا نہیں کرے گا۔
عوام الناس کیسے سدھرے گی
عوام الناس کو سدھارنے کے لیے علمائے کرام منبر پر بیٹھ کر سمجھانا چاہیے کہ اناءٰ کی جنگ چھوڑیں ، تمام انسان برابر ہیں اور سب کو برابر کے حقوق میسر ہیں تمام انسانوں کو عزت کا پورا پورا حق حاصل ہے ۔ نا انصافی معاشروں کو کھوکھلا کر دیتی ہے ۔ یہ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے جب کہ گزیٹڈ افسران ضلعی افسران کو چاہیے کہ عوام الناس کے سدھار سنوار کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیں جو روزانہ محلہ وائز جا کر عوام الناس کو جھوٹ ، لڑائی ، جھگڑے ، دنگے فساد کی سوچ کو ختم کرنے کے لیے تبلیغ کریں ۔
One thought on “پولیس اور ہمارا معاشرہ ۔ تحریر و تحقیق: محمد شہزاد خان دولتانہ ضلع وہاڑی”