Breaking
Sun. Dec 15th, 2024

تعارف

پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین بین الاقوامی سطح پر انتہائی پیچیدہ موضوع ہیں پاکستان کے قانون میں انتہائی گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ جب کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں پر اس کے اثرات جہاں بہت زیادہ ہیں وہیں پر مسلمان طبقہ بھی اکثر ان قوانین کی زد میں آتا رہتا ہے ۔ جہاں تک پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین میں پیچیدگیوں کا تعلق ہے تو ان قوانین کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ پس منظر ،نفاذ اور اس کے معاشرے پر کیا اثرات ہیں ان پر پڑتال انتہائی ضروری ہے

.

Mishal Khan killed by mob in mardan university

تاریخی پس منظر

پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین انگریز دور سے چلے آرہے ہیں جب برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں نے مذہبی جرائم پر جرمانہ عائد کرنے کی دفعات روشناس کروائیں ۔ لیکن موجودہ توہین رسالت کے قوانین فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دوران تشکیل دئیے گئے ، ضیاء الحق کے دور میں اسلامی سند حاصل کرنے کے لیے اسلامی قوانین کی سخت تشریحات کو نافذ کیا گیا اور توہین رسالت قانون کو وسیع کرتے ہوئے اس میں 295کے سیکشن سی کو متعارف کروایا گیا۔

قانونی نکات

پاکستان میں دفع 295اے مذہبی انتشار، مذہبی جذبات کو مجروح کرنا، کسی مسلک کے خلاف انتشار پیدا کرنا ، توہین صحابہ رضوان اللہ اجمعین ، توہین اہل بیت رضوان اللہ اجمعین پر لگائی جاتی ہے ۔ جبکہ مذہبی مقامات ، اشیاء کی توہین ، مذہبی کتب کی توہین پر 295بی دفعہ لگایا جاتا ہے اور 295سی پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کی توہین جسارت یا توہین آمیز تبصرے پر لگایا جاتا ہے ۔ جسے عموماً توہین رسالت قانون بھی کہتے ہیں ۔ 295اے کی سزا دس سال قید و جرمانہ جب کہ 295بی کی سزا عمر قید و جرمانہ اور 295سی کی سزا سزائے موت ہے ۔.

نفاذ اور تنازعات

پاکستان میں توہین رسالت کے جتنے بھی قوانین ہیں ان کا بے جا غلط استعمال شد و مد سے دیکھنے کو ملا ہے ۔ اکثر ان قوانین کو ذاتی انتقام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یا پھر مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے یا مسالک کے اختلاف میں دوسرے پورے مکتبہ فکر پر گستاخ رسول کی تہمت لگا دی جاتی ہے ۔
حد تو یہ ہے کہ توہین مذہب کے ملزم کو ہجوم اکثر تشدد کر کے جان سے مار دیتا ہے جو کہ ماورائے عدالت ہے ۔ جبکہ جھوٹے الزام کے نتیجے میں ملزم کی انتہائی گھٹیا تضحیک بھی کی جاتی ہے اور ہر وقت ملزم چاہے وہ بری بھی ہو جائے اس کی جان کو خطرہ لاحق رہتا ہے ۔

 

A mob in Karachi gather for protest.

ملزم کے اہل خانہ ماں ، باپ ، بہن ، بھائی کو انتہائی مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی بھی سر عام تضحیک کی جاتی ہے ۔ .

بہت سے ہائی پرفائل کیسز میں ملزم کو اگر سزا ہو جاتی ہے تو بعد ازاں اعلیٰ عدالت عدم شواہد کی بناء پر ملزم کو بری کرتی ہے جس پر چھوٹی عدالت کے فیصلے کو جواز بنا کر معزز علمائے کرام عوام الناس کو مزید مشتعل کرتے ہیں
اور معاملہ اس حد تک جا چکا ہے کہ کئی ججز کے قتل کے فتوے اور انعامات تک رکھے جا چکے ہیں ۔.

سیشن کورٹس کی جانب سے کیے گئے کئی فیصلے اعلیٰ عدلیہ نے ختم کیے اور سزائیں معاف کی ہیں لیکن موجودہ صورتحال بتا رہی ہے کہ انتہاپسند ہجوم اور نام نہاد علمائے کرام کا پریشر ملک کی عدلیہ پر واضح نظر آرہا ہے ۔

معاشرے پر اثرات

ملک خدادا پاکستان میں بریلوی حنفی، دیوبندی حنفی ، اہلحدیث ، اہل تشیع کی اکثریت ہے جب کہ عیسائی، ہندوو دیگران کی اقلیت ہے ۔معمولی لڑائی جھگڑوں پر توہین مذہب ، توہین رسالت کے پرچے کٹنا سوالیہ نشان ہیں ۔ معاشرے میں موجود عدم برداشت اس کی بنیادی وجہ ہے ۔ جو کہ علمائے حضرات کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
ایک مسجد سے دوسری مسجد کے امام کے خلاف توہین رسالت جیسے فتوؤں سے عوام الناس میں شدید بیزاری پائی جا رہی ہے ۔ ان قوانین کو چھیڑنے کی بجائے سب سے بہتر حل یہ ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والے کے خلاف قانون سازی کی جائے

Mother of 16-year-old Christian boy jailed for blasphemy, giving details

کیونکہ کسی پر توہین رسالت یا توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانا بھی ایک گھناؤنا جرم ہے لیکن اس کی تشریح تا حال نہیں کی جاسکی ہے اور کوئی واضح قانون بھی موجود نہ ہے ۔

جبکہ توہین رسالت قوانین کا اپنی من مرضی سے ریاست کی جانب سے استعمال بھی لمحہ فکریہ ہے۔ ریاست مظلوم کی آواز بننے کی بجائے جتھوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے۔ اور جتھے جس پر چاہتے ہیں مقدمہ درج کروا کر بعد ازاں اسی بے گناہ سے یا تو معافی منگوا کر اپنے جذبات کی تسکین کر رہے ہوتے ہیں یا پھر اس کو قتل کر کے جنت میں جانے کے سہانے سپنے دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔

جتھے یہ نہیں سوچتے کہ کسی ایک انسان کا قتل بنیادی طور پر پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ کسی ایک انسان کی تضحیک پورے انسانی کی تضحیک ہے ۔ جتھے لوگوں کے ایمان کے اندر جھانک کر اس کے ایمان کا فیصلہ خود بیچ چوراہے میں بیٹھ کر کر رہے ہوتے ہیں ۔ .

اس مسئلہ کا دیرپا حل

اس کا دیرپا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے علماۓ کرام ممبرز پر فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے جدوجہد شروع کریں ، ساتھ ہی یہ قانون بھی متعارف کروایا جائے کہ جو شخص کسی پر جھوٹا توہین رسالت یا توہین مذہب کا الزام لگاتا ہے اس کو بھی ویسے ہی کڑی سزا دی جائے گی ۔ جب کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے حکومت کی جانب سے باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دی جائے اور مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں ۔ وہ کتب جن میں کفر و ارتداد کےفتوے ناحق لگائے گئے ہیں ان کتب کو حکومت اپنی تحویل میں لے اور ایسے علمائےکرام پر فورتھ شیڈول لگایا جائے جو ملک میں بد امنی کے فروغ کے لیے ممبر کا استعمال کرتے ہیں ۔ ان پر ساری زندگی کے لیے ممبر پر بیٹھنے پر بھی پابندی عائد کی جائے ۔ وہ عناصر جو شر پسندی کرتے ہوئے آئے روز ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کر کے عوام الناس میں انتشار پیدا کرتے ہیں ان پر فورتھ شیڈول لگایا جائے ۔

A pic of Mishal khan killed by mob in Abdul wali University.

وہ لوگ جن پر ناحق توہین مذہب یا توہین رسالت کا الزام لگایا گیا اور بعد ازاں وہ عدالتوں سے بری ہوئے ان کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کی جائےاور ان کے لیے ماہانہ وظیفہ قائم کیا جائے ان کو سفری سہولیات دی جائیں یا پھر سرکاری نوکری دی جائے۔ ایسے لوگ انتہائی مظلوم ہوتے ہیں ایک تو ان کی عزت معاشرے سے چلی جاتی ہے دوسرا ان سے کوئی کام ، مزدوری وغیرہ نہیں کرواتا کیونکہ لوگ ڈرتے ہیں ،ان پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جائے ، جھوٹا الزام لگانے والے کو کسی بھی مقدمہ میں بطور مدعی ، بطور گواہ ، پیش ہونے پر ساری زندگی کے لیے پابندی لگائی جائے ۔ اوران کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ عوام الناس کو گمراہ کر کے کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنے والوں کا احتساب کیا جا سکے ۔

Spread the love

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *