میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آج تک مولوی کو حق بیان کرتے نہیں سنا۔ میں نے نام نہاد مولوی کو امریکہ و مغرب کی دلالی اور وکالت کرتے پایا ہے اور اس کو میں ثابت کر سکتا ہوں ۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے دیکھا کہ ایک مولوی دوسرے مولوی کو دلیل دینے کے بعد ہاتھ کا اشارہ کر کے کہتا ہے کہ ” ہن اتنا وڑا ہئی ” ۔ میں نے یہ ضرور دیکھا کہ ایک محلہ میں تین / چار مسالک کی علیحدہ علیحدہ مساجد ہیں اور چاروں کی علیحدہ گروپ بندی ہے اور چاروں مساجد میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی غیبت کر رہے ہوتے ہیں ۔
میں نے دیکھا کہ مولوی ہر شام کو روٹیاں اکٹھی کرنے ہر گھر کے باہر جاتا ہے اور بڑا مولوی ان روٹیوں میں حصہ دار بنتا ہے
میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب تعویز دھاگے کا کام کرتا ہے اور محبت کے نام پر بچیوں کو بہلانے پھسلانے کے لیے تعویز دیتا ہے
میں نے دیکھا کہ مولوی پیسے لے کر ختم شریف پڑھتا ہے اور اگر پیسے کم ہوں تو ختم تیز اور اگر پیسے زیادہ ہوں تو مترنم آواز سے ختم شریف پڑھا جاتا ہے
میں نے دیکھا کہ پھر مولوی متشدد ہو گیا ، شرافت اتار پھینکی اور آپے سے باہر ہوا ، لوگوں پر جھوٹ بہتان جو وہ مسجد کے اندر بیٹھ کر باندھا کرتا تھا وہ باہر نکل کر عوام الناس کے سامنے آکر لگانے لگا لوگوں کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو خون بہانے کے لیے اکسانے لگا۔
میں نے دیکھا کہ مولوی تدریس کے لیے آئی بچیوں سے رنگے ہاتھوں زناء کرتا پکڑا گیا اور اس سے بچیاں تو بچیاں ، معصوم بچے تک محفوظ نہیں رہے ۔
میں نے دیکھا کہ مولوی ضعیف روایات کو ریفرنس کے طور پر استعمال کر کے اپنے اپنے اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگا۔ جہالت کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کرنے لگا۔
پھر مولوی کے ہاتھ میں سوشل میڈیا جیسا ہتھیار آگیا اور اس ہتھیار کو اس نے یوں استعمال کیا کہ ہر طرف آگ لگانی شروع کر دی ۔ اس پر فتویٰ، اُس ہر فتویٰ ۔ یہ گندہ ، وہ گندہ ۔
میں نے صرف یہ نہیں دیکھا کہ اس مولوی نے آج تک یہ مطالبہ کیا ہو کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہو۔ زانی کی سزا سنگسار کرنا ہو اسلامی سزاؤں کا آج تک مولوی نے مطالبہ نہیں کیا کیونکہ اگر وہ یہ مطالبہ کرے گا تو سب سے پہلے اسی کے ہاتھ کٹنے ہیں سب سے پہلے اسی کو سنگسار کیا جانا ہے ۔ سب سے پہلے اس پر سزاؤں کا اطلاق ہونا ہے ۔ اس لیے مولوی چالاک ہو گیا ہے ۔
فرقہ واریت پھیلاتے یہ مولونڈے آخر کب تک اس قوم کو الو بناتے رہیں گے