ایک خبر کی خوشی
کبھی دور ہوا کرتا تھا کہ اخبار کو بہت اہمیت حاصل تھی کسی کی خبر اخبار پر چھپ کر آجاتی تو پورے شہر کو وہ سناتا پھرتا کہ میری اخبار میں خبر لگ گئی ہے پھر الیکٹرونک میڈیا کا دور آیا جس نے اخبار کی اہمیت کو آہستہ آہستہ ختم کیا
آج سے تقریباً بیس/بائیس سائل قبل جیو پہلا چینل پاکستان میں لانچ ہوا جس کی کافی مشہوری تھی۔ ٹی وی پر جھوٹی سچی خبر میک اپ زدہ چہرے سنا دیا کرتے تو وہ چاہے جھوٹ ہی ہو سچ مانا جاتا تھا
میک اپ زدہ چہرے مائیک جس کے آگے کر دیتے اور جتنے بھی اوٹ پٹانگ سوال کرتے وہ سب لوگ غور سے سنتے تھے ، لیکن سوشل میڈیا نے الیکٹرونک میڈیا اور اخبارات کا نہ صرف جنازہ نکال دیا ہے
الیکٹرونک میڈیا اور اخبارات کی موجودہ صورتحال
بلکہ اب الیکٹرونک میڈیا اور اخبارات کو کوئی پڑھنا گوارہ ہی نہیں کرتا۔ بلکہ سوشل میڈیا پر ہر شخص آزادی سے اپنی اپنی رائے رکھتا ہے ، نئی نسل نئے شعور کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔
اب عوام الناس کو میک اپ زدہ چہروں کے جھوٹ اور سیاہیاں سمجھ آنا شروع ہو گئی ہیں ، عوام الناس نے جھوٹ کو پست پشت ڈال کر سچ کو اپنانا شروع کر دیا ہے جس میں سوشل میڈیا کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔
جھوٹی صحافت آخر کب تک
صحافیوں کے پر بھی کٹ گئے ہیں کوئی صحافی اگر جھوٹ بولتا ہے تو عوام اس کا جو حشر کرتی ہے وہ دیکھنے لائق ہوتا ہے خود دیکھیں ، حامد میر جو کبھی ن لیگ کا بیانیہ پیش کرتا تھا تو اس کی ریٹنگ کیا ہو گئی
جیو کی ریٹنگ کی ہو گئی ، اب جیسے ہی جھوٹ بولا جاتا ہے عوام گردن سے پکڑ لیتی ہے ۔ اب وہ دور گئے کہ جب جھوٹ کا چورن بیچا جاتا تھا ۔ سچ بولو سچ میں برکت ہے ۔ اور جھوٹوں کے لیے تو لعنت ہی ہے۔
دوسری جانب عوام الناس بھی جھوٹ سن سن کر تنگ آچکی ہے اور اب الیکٹرونک میڈیا کو کوئی دیکھنا گوارہ ہی نہیں کرتا
یہی وجہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے اشتہارات بہت کم ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اشتہارات کی افراط ہوتی جا رہی ہے
ڈوبتی نیوز انڈسٹری
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا نے نیو انڈسٹری کو دبو کر رکھ دیا ہے ، نیوز چینل کی جیسے جیسے بھرمار ہوئی تھی ویسے ہی اب تمام نیوز چینل پر اشتہارات کی وجہ سے مالک چینل چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں
ملازمین کی تنخواہیں پوری کرنا سب سے مشکل امر بن چکا ہے ۔
یو ٹیوب کا سہارا لیا گیا لیکن یوٹیوب پر گھٹیا اور ذومعنی جملوں کے استعمال کے بغیر پذیرائی ممکن نہیں کئی نیوز چینل اپنے چینلز کی رینکنگ کے لیے اپنے تھمبنیل میں گھٹیا الفاظ کا استعمال کرتے ہیں
تاکہ سامعین متوجہ ہوں ۔ لیکن سامعین اب ان کو بھی دیکھنا گوارہ نہیں کرتے ۔