08 فروری کو پاکستان کے ھونے والے 16 ویں عام انتخابات کی انتخابی مہم کل رات اختتام پزیر ھو چکی ھے تاہم آج آخری روز بھی امیدوران کارنر میٹنگ اور ڈور ٹو ڈور کمپین کر سکتے ہیں لیکن سیاسی ریلی اور انتخابی جلوس پر پابندی ھو گی
اگر ہم نیشنل اسمبلی کے حلقہ این اے 157 کے رائٹ ونگ پی پی 230 کی بات کریں تو یہاں پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک لبیک پاکستان ، جماعت اسلامی ، پاکستان کسان اتحاد ، سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے علاؤہ کچھ آذاد امیدوار بھی میدان میں موجود ہیں جن میں قابلِ ذکر تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سید سلمان مہدی شاہ ، سابقہ ضلع ناظم وھاڑی سید شاہد مہدی نسیم شاہ صاحب کے بیٹے اور مسلم لیگ ن کے لگاتار دو بار ایم این اے رھنے والے سید ساجد مہدی سلیم شاہ صاحب کے بھتیجے ہیں
جبکہ دیگر آزاد امیدوران میں ڈاکٹر رانجھا ، عمر نزیر جٹ ، وغیرہ شامل ہیں لیکن اہم امیدوران میں مسلم لیگ ن کی سابقہ وفاقی وزیر سائنسی و ٹیکنالوجی محترمہ تہمینہ دولتانہ صاحبہ کے صاحب زادے میاں عرفان عقیل خاں دولتانہ ہیں جو اس حلقے سے پہلے بھی مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر مسلسل دو بار صوبائی اسمبلی کی نشست جیت چکے ہیں ، تیسرے اہم امیدوار تحریک لبیک پاکستان کے سید سلیم حسین شاہ ہیں جنکا تعلق سہوکا سے ھے اور وہ پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سابقہ ایم پی اے میاں حاجی ایوب خان سلدیرا سابق ایم پی اے کے بیٹے عمران ایوب خان سلدیرا ہیں جو پہلے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق میں بھی رہ چکے ہیں اور پہلے بھی اس حلقہ سے الیکشن لڑ چکے ہیں وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں حلقہ کو ٹائم دیتے ہیں نوجوان عوامی لیڈر ہیں لیکن الیکشن جیتنے میں مختلف وجوہات کی بناء پر کامیاب نہیں ھو سکے ۔
جنرل الیکشن 2024 میں بھی اصل مقابلہ ان چاروں امیدوران کے درمیان ھے جس میں فی الحال میاں عرفان دولتانہ سب سے آگے ہیں اور ہیٹرک کی پوزیشن کرنے کے انتہائی قریب ہیں جنکا اصل مدمقابل سید سلمان شاہد شاہ اور تحریک لبیک پاکستان ھے جو بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں گے ۔۔
پی پی 230 حلقہ لڈن ، لال دیہہ ، دادا کمیرا ، بڈھ غلام ، کچی پکی ، ساھوکا ، سلدیرا ، جملیرا ، غفور واہ ، کوٹ سادات ، احمد آباد ، سمیت تحصیل بوریوالا کے کئی دیہاتوں ، چکوک اور بستیوں پر مشتمل ھے جس میں تحصل وھاڑی کا بھی کچھ حصّہ شامل ھے ۔
حلقے میں کل ووٹرز کی تعداد قریباً دو لاکھ 35 ہزار ھے جس میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ کم سے کم پچاس فیصد رھتا ھے اور زیادہ سے زیادہ 65 فیصد ۔۔
اس مناسبت سے اس بار بھی ایک لاکھ بیس سے تیس ہزار تک ووٹ کاسٹ ھونے کی توقع ھے ۔
تمام امیدواروں کی سیاست اور ووٹرز کا تجزیہ
میاں عرفان دولتانہ کی تحصل وھاڑی پر مشتمل یونین کونسلز میں پوزیشن انتہائی مستحکم ھے وہیں سلمان شاہ کی تحصیل بورے والا کی کچھ یونین کونسلز میں پوزیشن مستحکم ھے جبکہ حلقے کے وسطی علاقوں میں تحریک لبیک ، اور پیپلز پارٹی کے مقامی امیدوران کے ذاتی و شخصی ووٹوں کی وجہ سے یہاں اؤل الذکر امیدوران کا ووٹ بینک برابر ھے جبکہ ان وسطی علاقوں میں اپنی اپنی ایک ایک دو دو یونین کونسلز سے تحریک لبیک اور پیپلز پارٹی کے امیدوران کی پوزیشن مستحکم ھے لیکن سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ تحصیل وھاڑی میں شامل یونین کونسلز بڑی آبادیوں پر مشتمل ہیں جہاں ووٹرز کی تعداد اور شرح بھی زیادہ رہتی ہے جن میں صرف ایک یونین کونسل لڈن قریباً بیس ہزار سے زیادہ نفوس پر مشتمل ھے اور بلحاظ ابادی حلقے کی سب سے بڑی یونین کونسل اور مسلم لیگ ن کے امیدوار عرفان دولتانہ کی گھر کی یونین کونسل ھے
۔ اس طرح ساھوکا ایک بڑی یونین کونسل ھے لیکن وہ تحریک لبیک کے امیدوار کا گھر ھے یہاں یہ بات قابل ذکر ھے کہ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار سید سلیم حسین شاہ صاحب اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار سید سلمان شاہد شاہ صاحب آپس میں قریبی رشتہ دار بھی ہیں اور سابقہ الیکشن میں سید سلمان شاہد شاہ کو ہی سپورٹ کرتے رھے ھیں جبکہ اس بار خود میدان میں ہیں جس سے اس یونین کونسل میں موجود شاہ برادری کا بڑا ووٹ ٹوٹ کر سید سلیم شاہ صاحب کے حصّے میں جائے گا جس سے سلمان شاہ کو نقصان ھوگا
دوسرا سید سلمان شاہد شاہ کا ہولڈ والا حلقہ چکوک اور چھوٹی آبادیوں پر مشتمل ھے جہاں ووٹرز کاسٹ کی شرح کم رہتی ہے اور مہاجر بستیاں ھونے کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں بڑے شہروں اور بیرون ملک مقیم ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی بڑی تعداد میں ووٹرز موجود ہیں اور اگر ان علاقوں سے ٹرن آؤٹ بڑھا دیا جائے تو یقیناً سید سلمان شاہ صاحب کو فائدہ ھو گا ۔
جو لوگ حلقے کی انتخابی سیاست کو سمجھتے اور پاکستان کے سیاسی کلچر اور سیاسی ہسٹری سے آشنا ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت تک پارٹی کے پاپولر ووٹ سے زیادہ ان حلقوں میں شخصی اور روایتی ووٹ معنی رکھتا ہے ۔۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار کی خوش قسمتی اور کامیاب سیاسی حکمت عملی یہ بھی ھے کہ ان کے مد مقابل ان کی ھولڈ والی یونین کونسلز میں کوئی بھی مقامی امیدوار نہیں ھے یا انہیں الیکشن سے اپنے حق میں دستبردار کرا لیا گیا ہے جسکا ڈائریکٹ فائدہ میاں عرفان دولتانہ کو ھو گا ۔۔ اس الیکشن میں بہت عرصے بعد دولتانہ فیملی کی نوے سے پچانوے فیصد اکثریت بھی اپنی ہی برادری کے امیدوار کو ووٹ اور سپورٹ کر رہی ہے
قیام پاکستان کے وقت سے یہ خاندان مسلسل ایوان اقتدار کی راہداریوں میں پہنچتا رھا ھے اس سیاسی بیک گروانڈ کی وجہ سے حلقے میں سیاسی اثر و رسوخ بھی ھے اور یہ سب ملکر اس حلقے سے دس سے پندرہ ہزار ذاتی ووٹ بینک بھی نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے نظریاتی ووٹرز ، برادری ازم ، دھڑا بندی میں بھی مسلم لیگ ن کو فوقیت حاصل ہے اس لیئے کہ یہ حلقہ مسلم لیگ ن کا ہی گڑھ رھا ھے اور یہاں سے سوائے ایک دو بار کے پاکستان کی ستتر سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ کبھی نہیں ھاری ۔
عرفان دولتانہ کو سب سے بڑا ایدوانیٹج مسلم لیگ ن کے ایم این اے کے امیدوار سید ساجد مہدی سلیم شاہ صاحب کی صورت میں ملا ھے جو مدمقابل امیدوار کے چچا ہیں ، دو بار لگاتار ایم این اے رھے ہیں اور میاں عرفان دولتانہ کو بھرپور سپورٹ کر رہے ہیں ۔۔ ان حلقوں جو تحصیل بورے والا پر مشتمل ہیں سید ساجد مہدی کا بہت اثر و رسوخ ھے اور کثیر تعداد میں پارٹی کے علاؤہ زاتی ووٹ بینک ھے یہاں تک کہ ان علاقوں کے ایک ایک چک ، دیہات ، بستی اور گلیوں میں انکا پینل اور نمائندے موجود ہیں جو ہمیشہ وھاں کے لوگوں سے رابطے اور ان کے مسائل کے حل کے لیئے کوشاں رھتے ہیں
دوسری طرف سید سلمان شاہد شاہ کے والد کا بھی حلقے میں کافی اثرورسوخ ھے وہ بھی سابقہ وفاقی وزیر ، دو مرتبہ ایم این اے اور ایک مرتبہ ضلع ناظم وھاڑی رہ چکے ہیں اور طبیعت ناسازی کے باوجود اپنے بیٹے کی انتخابی مہم چلاتے رھے ہیں ۔۔ دوسرا بڑا فیکٹر مہاجر ، سید ،کشمیری اقوام کا ووٹ بینک ھے جو اکثر مہاجر امیدوار کو ہی ملتا ہے جبکہ دوسرے امیدوران کو صرف ذاتی تعلق ، دھڑا بندی ، دوستی یا پارٹی لیڈر شپ پر ووٹ پڑتا ھے ۔
تیسرا فیکٹر پاکستان کی انتخابی سیاست میں عمران خان کی بڑھتی مقبولیت ھے جس نے مسلم لیگ ن کے مخالف ووٹر اور خاموش ووٹرز کو اپنی جانب کھینچا ہے اور کسی حد تک مسلم لیگ کے قلعے میں شگاف ڈالنے میں کامیاب بھی ھوئی ھے لیکن اس سب کے باوجود سید سلمان شاہد شاہ کے لیئے کافی مشکلات ہیں اور اسکی سب سے بڑی وجہ ان کے چچا کا مخالف سیاسی کیمپ میں ھونا ھے اور انہوں نے بہت سارا ووٹ توڑ کر اپنے رائٹ ونگ پر موجود پارٹی امیدوار میاں عرفان دولتانہ کی جھولی میں ڈال دیا ھے ۔
اگر ٹرن آؤٹ پچاس یا تھوڑا اوپر رھا تو پی پی 230 میں ٹوٹل کاسٹنگ ووٹ ایک لاکھ تیس ہزار تک ھو سکتا ھے ۔
جس میں میاں عرفان دولتانہ 40 ہزار ، سید سلمان شاہد شاہ 30 ہزار ، سید سلیم حسین شاہ 15 ہزار ووٹ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کو محض دس ہزار ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑے گا ۔۔ کسان اتحاد اور باقی آزاد امیدوار اپنا تھوڑا بہت حصہّ وصول کریں گے جبکہ کچھ آزاد امیدوران کی ضمانتیں بھی ضبط ھو جائیں گی ۔
اہم بات
ساری سیاسی ہلچل اور کمپیئن ایک طرف ، دھڑا بندی ، برادری ازم کی سیاست اور جلسے جلوس ایک طرف اور دوسری طرف پولنگ ڈے ھوتا ھے جو پولنگ ڈے بہتر مینج کر لیتا ہے ، ایک ایک ووٹر کو گھر سے لے آنا ، واپس پہنچانا ، بیرون شہر مقیم ووٹرز کو ٹرانسپورٹ کی سہولت بہم پہنچانا ، ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر انتخابی کیمپ اور ھوشیار عملہ کی تعیناتی ،بہترین اور ٹرینڈ پولنگ ایجنٹس کی تعیناتی جو اس پراسس کو سمجھتے اور جانتے ھو ، پورے حلقے کے ہر انتخابی پولنگ اسٹیشن تک نمائندگان کی مسلسل رسائی ، آخری وقت تک ووٹرز سے اپنے نمایندگان کے ذریعے رابطہ ، ووٹر کو پولنگ اسٹیشنز کے اندر بھی گائیڈ لائن کی فراہمی ، ووٹرز کو کوئیک رسپانس دینے والا عملہ اس سارے انتخابی پراسس کی اصل اساس ھے جو آخری وقت تک پر سکون ہو کر مخالف سیاسی نظریات والے کو قائل کرنے کی کوشش کرے ۔۔
سارا انتخابی پراسس ایک طرف اور پولنگ ڈے ایک طرف ۔
جو پولنگ ڈے کو بہتر حکمت عملی بنائے گا ، پُرسکون اور ھوش مندی سے محنت کرے گا وہ انتخابی رزلٹ پر ضرور اثر انداز ھو گا کیونکہ اچھا اور ٹرینڈ عملہ آخری وقت تک ووٹر کو مطمئن کر سکتا ہے خاص طور پر ہمارے دیہی علاقوں میں جہاں اکثر لوگوں کو سیاست کا زیادہ پتہ نہیں ھوتا ، سیاسی منشور کبھی پڑھا نہیں ھوتا ، دو سے تین انتخابی نشانوں کے علاؤہ نشان اور پرچی پر امیدوران کا نام پڑھنا نہیں آتا وھاں پر ہار جیت کا تعین بہتر پولنگ ڈے مینجمنٹ پر ھوتا ھے جس میں یہاں ن لیگ ماسٹر ھے ، ٹرینڈ ھے اور پہلے بھی دو بار یہ نشست جیت چکی ھے ۔
عرفان دولتانہ کو لڈن ، دادکمیرا ، بڈھ غلام ، لال دیہہ ، تجوانہ ، میاں حاکم ، احمد آباد سے کچی پکی تک صرف پندرہ ہزار کی انتخابی لیڈ بھی مل جائے تو یہ فیصلہ کن ثابت ھو گی جبکہ سید سلمان شاہ کو ان علاقوں سے یہ لیڈ پانچ ہزار سے بھی کم رکھنی ھو گی تبھی مقابلے میں باقی رھنے کے امکانات ہیں اور فی الحال وہ ان علاقوں سے میاں عرفان دولتانہ کی لیڈ کو کم کرنے اور ووٹر توڑنے میں کامیاب نظر نہیں آتے بلکہ ان علاقوں میں میاں عرفان دولتانہ کا آخری رات ووٹ بڑھنے کا امکان ہے جو کہ ہمیشہ ھوتا آیا ہے اور اگر کوئی اکا دکا مخالف سیاسی کیمپ میں موجود ہے آج رات تک واپس اپنی اصل جگہ پہنچ جانے کی توقع ھے ۔۔ !!