Breaking
Sun. Dec 15th, 2024

حلقہ این اے 157کی تازہ ترین صورتحال، پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن کیا ہے۔ تحریر و تحقیق : محمد علی فرید

Ejaz Sultan BandeshaPTI Position NA 157

پی ٹی آئی نے این اے 157 میں اعجاز سلطان بندیشہ کی انتہائی کمزور پوزیشن دیکھتے ھوئے ٹکٹ واپس لے لی ۔۔
کسی اور امیدوار کو ٹکٹ جاری کرنے کا متوقع فیصلہ!!
بلکہ عائشہ نذیر جٹ اور اورنگزیب خان کھچی کی ٹکٹیں بھی پارٹی قیادت نے واپس لے لیں ۔۔
جو امیدوران کمزور پوزیشن میں ہیں اور اتوار کو جزوی طور پر بھی گھر سے باہر نہیں نکلے قومی اسمبلی کے ان 42 امیدواروں سے ٹکٹ واپس لے لی گئیں ۔۔
انکے متبادل کا اعلان ایک سے دو دن کے اندر کیئے جانے کا امکان ۔۔
لڈن اور حلقے کے سوشل میڈیا یوزرز نے ہر پول میں انہیں جتوایا ھوا تھا جبکہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کے مطابق یہ امیدوار مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ۔۔
آگلے مرحلے میں پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی 100 کے قریب امیدواروں سے ٹکٹیں واپس لیئے جانے کا امکان ھے جس میں حلقہ پی پی 232 سے وحید گریوال بھی شامل ہے جو گروانڈ میں نظر بھی نہیں آ رہا ۔۔
حلقہ این اے 159 وھاڑی فور میں بھی سعید احمد منیس نے پی ٹی آئی سے وابستہ ساری جٹ بھٹی راجپوت برادری توڑ کر اپنے ساتھ شامل کر لی تھی اور قومی اسمبلی کے چار امیدواروں نے سعید احمد منیس کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا جس پر سعید احمد منیس کو سیاسی فریق پر واضح برتری حاصل ھو گئی تھی ۔۔ پچھلی بار بھی سعید احمد منیس صرف ایک ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہارا تھا جبکہ اس کے نیچے صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر اپنے بیٹوں کے ساتھ پینل بنا کر سولو فلائٹ پکڑی تھی جس کا نقصان ہوا ۔۔ اس مرتبہ سابق ایم پی اے میلسی میاں ماجد نواز آرائیں کے بیٹے کے ساتھ پینل ھے جس پر میلسی شہر اور آرائیں برادری کا ووٹ بھی حاصل تھا ۔۔
این اے 156 وھاڑی ون میں چوہدری نذیر آرائیں اور ان کے بھائی چوہدری فقیر آرائیں مسلسل تین بار ایم این اے منتخب ھو چکے ہیں اور بورے والا ہمیشہ مسلم لیگ ن کا مضبوط قلعہ رہا ہے اس لیئے مسلم لیگ کی قیادت بھی وھاڑی کی بجائے بورے والا میں انتخابی جلسہ کو ترجیح دیتی ہے ۔۔ اس بار بھی چوہدری نذیر آرائیں کافی مضبوط پوزیشن میں تھے اور ان کے نیچے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی بہت مضبوط ہیں ۔۔ جس سے بورے والا کی ڈوگر برادری ، آرائیں برادری ، اور راجپوت برادری کا سارا ووٹ بینک چوہدری نذیر آرائیں کو پڑ جاتا ھے ساتھ ہی انہیں سید برادری ، بورے والا کے شہری حلقے میں ساجد مہدی ، شاہد مہدی نسیم شاہ کی حمایت مل جاتی ہے جس سے مہاجروں کا سارا ووٹ بینک بھی چوہدری نذیر آرائیں کو پڑتا ہے ، ورک ، برادری ، دھڑے بندی ، ترقیاتی کاموں ، حلقے میں وقت دینے سے چوہدری نذیر آرائیں ہمیشہ سیاسی مخالفین پر برتری لینے میں کامیاب رہے ہیں اور اس بار بھی جیت یقینی تھی ۔۔ عائشہ نذیر جٹ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی قیادت نے انہیں این اے کی نشست پر ٹکٹ دی انکی بہن عارفہ نذیر جٹ کو عائشہ نذیر جٹ کے نیچے صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ بھی جاری کر دی جبکہ ایک نشست پر چوہدری نذیر جٹ کا بیٹا آزاد حیثیت میں کھڑے ھو گئے جس سے تحریکِ انصاف کا نظریاتی ووٹر بھی بد ظن اور متنفر ھو گیا اور مختلف حلقوں میں ایک ہی گھر کے افراد کو سپورٹ کرنا مشکل ھو گیا ۔۔ تاہم اگر عائشہ نذیر جٹ کی ٹکٹ واپس نہ لی جاتی تو بھی عائشہ نذیر جٹ ھار جاتی لیکن مدمقابل یہی رہتی ۔۔ کچھ حلقوں کے مطابق یہاں بڑے سخت مقابلے کی توقع بھی ظاہر کی جا رہی تھی ۔۔!!
جبکہ این اے 158 وھاڑی تھری میں طاہر اقبال چوہدری کی ٹکٹ واپس نہیں لی گئی ۔۔ یہاں مقابلہ مسلم لیگ ن کی تہمینہ دولتانہ اور طاہر اقبال چوہدری کے درمیان ھے ۔۔۔اس حلقے سے طاہر اقبال چوہدری مسلسل تین بار ایم این اے رہ چکے ہیں اور تہمینہ دولتانہ کو مسلسل تین بار شکست دی ھے لیکن اس بار صورتحال مختلف ھے ۔۔
تہمینہ دولتانہ کی شکست کی بڑی وجہ مسلم لیگ ن کے آپسی اختلافات ہیں جہاں ثاقب خورشید اور نعیم بھابھہ دونوں ہی این اے کا ووٹ محترمہ تہمینہ دولتانہ کو کاسٹ نہیں کرواتے اور کمپین پر بھی ایک ساتھ نظر نہیں آتے ۔۔ یہاں تک کہ ثاقب خورشید خود نیشنل اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن پارٹی نے ٹکٹ نہیں دی ۔۔ میاں ثاقب خورشید لگاتار چار دفعہ وھاڑی سے ایم پی اے منتخب ھو چکے ہیں ۔۔ پچھلے تین الیکشنز میں آرائیں برادری کا ووٹ اوپر نیچے آرائیں امیدوار کو ہی پڑتا رہا جبکہ تہمینہ دولتانہ نعیم خان کے مقابلے خان محمد کھچی کو اہمیت دیتی ہیں جو ایک دفعہ ایم پی اے رہ چکے ہیں جس سے دونوں صوبائی اسمبلی کے امیدوار الگ الگ دھڑا بندی بنا کر اپنا ووٹ مانگتے ہیں ۔۔ لیکن اس دفعہ طاہر اقبال چوہدری اشتہاری کی حیثیت سے انڈر گراؤنڈ تھے اور اب منظر عام پر آئے ہیں اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ٹکٹ اپنے بھائی زاہد اقبال چوہدری کو دلا دی جس سے آرائیں برادری کا ووٹ منقسم ھو گیا ۔۔ اوپر سے سخت پارٹی پالیسی کی وجہ سے اس بار پینل بھی فی الحال اختلافات کے باوجود متحد ھے جہاں طاہر اقبال چوہدری کو کمپین میں مشکلات کا سامنا ھے وہیں تہمینہ دولتانہ دھڑلے سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس مرتبہ جیتنے کی پوزیشن میں آ گئی ہیں کیونکہ انہیں صوبائی اسمبلی کے کچھ آذاد امیدواروں کی سپورٹ بھی حاصل ھو گئی ھے جن میں خان محمد خان کھچی سر فہرست ہیں جبکہ نعیم خان بھابھہ کے بھائی ندیم خان بھابھہ بھی الیکشن لڑ رھے ہیں جس سے ھو سکتا ھے اس حلقے سے کوئی آزاد امیدوار بھی ممبر صوبائی اسمبلی بن جائے ۔۔
این اے 157 وھاڑی ٹو میں تحریک انصاف سب سے کمزور پوزیشن پر تھی اور صرف نظریاتی ووٹ پڑنے کی توقع تھی جس میں بھی ساجد مہدی شاہ ، برادری ازم ، دھڑا بندی ، جوڑ توڑ کر کے گہرا شگاف ڈالنے میں کامیاب ھو چکے تھے ۔۔ اس حلقے میں اگر سبین صفدر بندیشہ کا ٹکٹ ری ٹین بھی کر دیا گیا تو زیادہ سے زیادہ 30/40 ہزار ووٹ حاصل کر سکیں گی ۔۔ جبکہ تیسرے نمبر پر رھنے کی توقع ھے ۔۔ آذاد امیدوار بلال بھٹی بھی کمپین جاری رکھے ہوئے ہیں آگر وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے تو یقیناً ایک اچھا مقابلہ دیکھنے کو ملتا لیکن وہ ابھی تک خود کو لیگی امیدوار ہی ظاہر کر رہے ہیں جبکہ پینل پیپلز پارٹی کے امیدوران کے ساتھ بنایا ہے لیکن خود پی پی پی کی ٹکٹ نہیں لی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وقتی مفاداتی اتحاد ھے اور الیکشن کے بعد ختم ہو جائے گا ۔۔ بلکہ اس میں ابھی سے دراڑیں پڑ چکی ہیں کیونکہ ایک جگہ پر بلال بھٹی نے کہا کہ میں ابھی بھی مسلم لیگ ن میں ھوں اور حکومت کا حصہ ھوں گا ۔۔ جب تک مجھے پارٹی خود نہ نکالے میں خود پارٹی نہیں چھوڑوں گا لیکن الیکشن لڑنا میرا حق تھا ۔۔
بحثیت مجموعی مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی چاروں نشستیں جیت کر ضلع کلین سویپ کرنے کی پوزیشن میں ھے۔۔ البتہ اگر پی ٹی آئی کو لیول پلینگ فیلڈ ملتی ، انکے امیدوار مضبوط ھوتے تو صورتحال مختلف ھو سکتی تھی ۔۔ پی ٹی آئی کے اس ضلع سے پیشتر امیدوار کمزور تھے ۔۔ اگر این اے 157 میں سید شاہد نسیم مہدی شاہ امیدوار ھوتے جو کہ صحت کے مسائل سے دو چار ہیں یا انکے بیٹے سلمان شاہ این اے کا الیکشن لڑتے تو یقیناً سبین صفدر بندیشہ سے کہیں مضبوط امیدوار ھوتے ۔۔
وھاڑی میں اگر ٹکٹ زاہد اقبال چوہدری کی جگہ کسی اور برادری کے امیدوار کو مل جاتی تو بہتر رزلٹ آتے ۔۔ یہاں بھی وہی مسئلہ کہ ایک ہی گھر کے افراد کو بڑا اور چھوٹا ووٹ دینا مشکل ھوتا ھے ۔۔ این اے 156 میں بھی نیشنل اور صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ دو بہنوں کو جاری کر دی اور شہر کی بڑی برادریوں آرائیں اور بھٹی برادری کو نظر انداز کر دیا گیا۔۔ پی پی پی 232 میں تحریک انصاف کے امیدوار کا پتہ ہی نہیں ھے بلکہ اکثریت اس کی شکل اور چہرے سے ہی ناواقف ہے بس نیشنل اسمبلی کے امیدوار نے اپنی قربت اور دوستی کی وجہ سے ٹکٹ دلوا دی اگر یہاں ٹکٹ خاکوانی خاندان ، بھٹی خاندان یا چوہدری ایوب بندیشہ کو مل جاتی تو اس نشست پر بھی اچھا مقابلہ ھوتا ۔۔
نظریاتی ووٹ بینک کے ساتھ ساتھ یہ ضلع شخصی ووٹ اور روایتی ووٹ ہر ہی تکیہ کرتا آیا ہے اس لحاظ سے مسلم لیگ ن نے مضبوط ترین امیدواروں کو ٹکٹس جاری کیں جبکہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کی تجربہ کاری اور محدود وسائل کی وجہ سے ٹکٹس کمزور امیدوران کو دی گئیں ہیں ۔۔ صوبائی اسمبلی کی ایک دو نشستوں پر جہاں امیدوار تگڑے ہیں تحریکِ انصاف مشکلات کے باوجود تگڑا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ھے جہاں سلمان مہدی شاہ اور جہانزیب خان کھچی قابل ذکر ہیں جنکا مقابلہ بالترتیب مسلم لیگ ن کے میاں عرفان دولتانہ اور مسلم لیگ ن کے ہی میاں خالق نواز آرائیں سے ھے ۔۔

Spread the love

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *